
میل ڈومینیس
ریاست کے شہری کی حیثیت سے عورت اور مرد دونوں کومساوی حقوق حاصل ہیں۔ لیکن اس مساوات کو ان کے کام سے نہیں الجھانا چاہیے۔ حقیقت میں عورت اور مرد دونوں نفسیاتی اور حیاتیاتی طور پر مختلف ہیں۔ ہم ایک مردانہ معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کتنے فیشن کے دلدادہ، کھلے ذہن، فیشن کرنے والے یا تعلیم یافتہ ہو جائیں، ہم اب تک طاقت اور صنفی سیاست میں امتیازی سلوک کر تے ہیں۔ مردانہ معاشرے ، اپنی خواتین کو خود مختارانہ حقوق نہیں دیتے اور ان کی شادی صرف خاندان میں اضافے کی خاطر، پیسے یا عزت کے لیے کرتے ہیں اور اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ عورتیں کیا چاہتی ہیں۔مردقوانین بناتے ہیں اور صرف مردوں کو ہی ذیادہ پیسے کمانے کے لیے کام کرنے کی آزادی ہے۔ یہاں تک کہ چند سال قبل جب ہمار ا ملک ایک خاتون وزیرِ اعظم چلا رہی تھیں، ہم اس امتیازی سلوک کے مخمصے سے نہ نکل سکے۔ ہمارے گھروں میںآج بھی مردوں کا راج ہے اور ہمارے بنک، دفتر اور دوسرے ادارے بھی مرد چلا رہے ہیں۔
تاہم خواتین نے اپنا ایک وقار اور معیارقائم کیا ہے اور انہوں نے پہلے ہی یہ ثابت کر دیا ہے کہ عورتیں مردوں سے کم نہیں ہیں، لیکن ابھی تک کمتری کے کلنک نے عورتوں کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ عورتیں آج بھی پہلے کی طرح ہیں اور اگر انہیں تبدیلی کا موقع نہ دیا گیاتو ان کی حالت ہمیشہ ایسی ہی رہے گی۔
ایک عورت کے طور پر ، آپ کو اپنے آپ پر یقین ہونا چاہیے، اور آپ کو مردانہ غلبے کے دقیانوسی کلچر کو رد کرنا چاہیے۔ آپ کسی بھی شعبے میں ایک مرد سے کہیں ذیادہ بہتر کر سکتی ہیں اور یہ یقین آپ کو اپنے اوپر فخر کرنے کا موقع دے دیتا ہے۔