شمسی توانائی کے ثمرات صارفین تک پہنچیں گے؟

پاکستان کے ضلع بہاولپور میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والے سب سے بڑے منصوبے قائداعظم سولر پارک کا افتتاح کر دیا گیا ہے۔
حکومت کے دعووں سے لگتا ہے کہ اگلے چند سالوں ملک میں توانائی کا انقلاب آنے کو ہے اور پھر پاکستان کے عوام کہیں گے کہ آخر لوڈ شیڈنگ اور توانائی کا بحران کیا بلا ہوتی ہے۔
بہرحال سوال یہ ہے کہ بہاول پور میں 15 ارب روپے کی لاگت سے پانچ سو ایکڑ پر لگنے والے چار لاکھ سولر پینلز کے ثمرات صارفین تک پہنچ سکیں گے کہ نہیں؟
بجلی سے محروم پاکستانیوں کو سورج کا سہارا
توانائی کے اُمور کے ماہر ارشد عباسی کے خیال میں بجلی بنانے کے لیے لگائے گئے ان سولر پینلز کا کوئی فائدہ صارف تک نہیں پہنچے گا۔
’ہمارے ملک میں بجلی کی مہنگی پیداواری لاگت ہمیشہ سے مسئلہ رہی ہے۔ شمسی بجلی پر لگا ٹیرف اگر کم بھی ہو تو دیگر اخراجات جیسے کہ تاروں کی مرمت اور این ٹی ڈی سی وہیلنگ پر آنے والی لاگت سمیت اس کی تقسیم کے اخراجات ملا کر ایک عام صارف کو یہ بجلی فی یونٹ 30 روپے میں مل سکے گی۔‘
تاہم پاکستان میں اقتصادی اُمور پر کام کرنے والے تھنک ٹینک ایس ڈی پی آئی سے وابستہ ڈاکٹر وقار احمد کہتے ہیں کہ ’عالمی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ مجموعی طور پر شمسی توانائی سے حاصل ہونے والی بجلی کی لاگت وقت کے ساتھ کم ہوتی رہتی ہے۔‘
ان کے مطابق سولر سیلز کی ٹیکنالوجی میں کافی بہتری آئی ہے اور ان کی دیکھ بھال اور مرمت پر روایتی بجلی کے ذرائع کے مقابلے میں بہت کم خرچہ آتا ہے۔
جموعی طور پرماہرین حکومت پاکستان اور چین کے تعاون سے شروع کیے جانے والے اس سولر منصوبے کو سراہتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ روایتی طریقوں یعنی ایندھن سے پیدا کی جانے والی بجلی نہ صرف مہنگی ہوتی ہے بلکہ یہ آلودگی کا سبب بھی بنتی ہے۔ اس کے علاوہ عالمی منڈیوں میں تیل کی بڑھتی قیمتوں کا اثر فوری طور پر بجلی کی قیمتوں پر بھی پڑتا ہے۔
تاہم ارشد عباسی کے خیال میں سولر پاور منصوبہ لگانے میں سب سے کم وقت لگتا ہے لیکن ایک مہنگا سودا ہے ۔
’اگرایک میگاواٹ سولر پلانٹ لگائیں تو اس سے سالانہ 14 لاکھ یونٹ کی پیداوار ہو گی جبکہ پون پروجیکٹ سے 34 لاکھ یونٹس اور ہائیڈرو پراجیکٹ سے45 لاکھ یونٹس اور تھرمل سے 60 لاکھ سالانہ پیداواری یونٹ حاصل ہوں گے۔ اسی تناسب میں دیکھا جائے تو سولر پر سرمایے کی لاگت کافی زیادہ ہے اور اس سے حاصل منافع کم۔ بس اس منصوبے کے بعد آپ دنیا کو یہ کہہ سکیں گے کہ پاکستان نے بھی ایک بہت بڑا ماحول دوست متبادل توانائی کا منصوبہ لگایا ہے۔‘
ارشد عباسی نے بتایا کہ ’خطے میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کا بھارتی منصوبہ مثالی ہے۔ انھوں نے نہر کے اوپر یہ پینلز لگائے ہیں ۔اس کی وجہ سے تاروں اور بجلی کی چوری جیسے مسائل بھی پیدا نہیں ہوتے کیونکہ یہ پینلز بجلی کے استعمال کی جگہوں سے دور نہیں ہیں اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ بڑھتے درجۂ حرارت کے ساتھ پانی بھی آبی بُخارات بن کرنہیں اُڑتا۔‘
دوسری جانب ڈاکٹر وقار احمد کہتے ہیں کہ ’ پاکستان میں توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے سولر پارک کی طرح میگا یونٹس لگانے کے ساتھ ساتھ گھریلو سطح پہ بھی سولر پینلز لگائے جانے کی ضرورت ہے جس سے قومی گرڈ اسٹیشن پر بوجھ کم پڑےگا۔‘
انھوں نے اس سلسلے میں مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ملک میں شمسی توانائی کے فروغ کے لیے ایسے افراد کو جو نئی رہائشی عمارات تعمیر کرنے والے ہوں یا گھریلو یا کمرشل استعمال کے لیے سولر پینلز لگانا چاہتے ہوں انھیں مختلف رعایات دی جائیں یہ نظام نہ صرف چین بلکہ آسٹریلیا اور ایشیا پیسفک کے مختلف ممالک میں نظر آتا ہے۔‘
سولر بیٹری بنانے والے خام مال پر حکومت نے بھاری ٹیکس لگا رکھا ہے جس کی وجہ اس صنعت میں خودکفالت کرنے کے بجائے عموماً تیار بیٹریوں کو درآمد کرنا پڑتا ہے اور مقامی منڈی میں اس صنعت کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔
پاکستان میں گذشتہ کئی برسوں سے جاری توانائی کے بحران نے نہ صرف عام آدمی کو متاثر کیا ہے بلکہ معیشت کے پہیے کو بھی پیچھے کی طرف دھکیل دیا ہے۔
ماہرین متفق ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر میں بجلی کی پیداوار کے لیے ایندھن کے ذخائر پرانحصار کرنا ممکن نہیں ہے اس لیے دنیا بھر کی حکومتیں آہستہ آہستہ توانائی کے متبادل راستے اختیار کر رہی ہیں۔
اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو توانائی کے متبادل ذرائع جیسے کہ شمسی توانائی کا انقلاب لانے کی سخت ضرورت ہے لیکن اس انقلاب کی قیمت صارف کو بہت بھاری پڑے گی۔
Source : bbc urdu