روس میں دوسری جنگ عظیم کی فتح کی یاد میں بڑی پریڈ

دوسری جنگ عظیم میں نازی جرمنی کے خلاف فتح کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر روس کے دارالحکومت ماسکو میں آج تک کی سب سے بڑی فوجی پریڈ منعقد ہوئی ہے۔
سنیچر کو ریڈ سکوائر پر ہزاروں فوجیوں نے پریڈ کی اور پہلی مرتبہ نئے اور جدید دفاعی سازو سامان کی نمائش کی۔
روس میں دوسری جنگ عظیم کی فتح کی یاد: تصاویر
اس تقریب میں 20 سے زائد ممالک کے سربراہان شرکت کر رہے ہیں جبکہ بہت سے مغربی رہنماؤں نے یوکرین کے بحران میں روس کے کردار کی وجہ سے اس تقریب کا بائیکاٹ کیا ہے۔
روس کے صدر ولادمیر پوتن نے کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں عالمی تعاون کو خطرہ لاحق ہوا ہے۔ ان کے یوکرینی ہم منصب نے ان پر جارحیت کا جواز ڈھونڈنے کا الزام لگایا ہے۔
روس مغربی کے ان الزامات کی تردید کرتا ہے کہ وہ مشرقی یوکرین میں باغیوں کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ اپریل سنہ 2014 سے اب تک مشرقی یوکرین کے علاقوں دونیتسک اور لوہانسک میں 6000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اپنے خطاب میں صدر پوتن نے نے دوسری جنگِ عظیم میں ہلاک ہونے والے سویت فوجیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ انھوں نے برطانیہ، فرانس اور امریکہ کے عوام کے فتح میں کردار کو بھی سراہا۔
انھوں نے کہا کہ حالیہ دہائیوں میں بین الاقوامی تعاون کا بنیادی اصول کئی مرتبہ فراموش کیا گیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح ملٹری بلاک کی ذہنیت زور پکڑ رہی ہے۔
دریں اثنا کیف میں یاد گار پر پھول چڑھانے کی ایک تقریب میں یوکرین کے صدر پیٹرو پوروشنکو نے گذشتہ برس روس کی طرف سے ان کی حکومت کو فسطائی کہنے کی مزمت کی کی ہے۔
’ظاہر ہے کہ یہ صرف ایک مقصد کے لیے کیا گیا ہے، کہ یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت کا جواز ڈھونڈا جائے۔‘
فتح کا یہ جشن مقامی وقت کے مطابق صبح 10 بجے شروع ہوا جبکہ اس سے قبل دارالحکومت کی سڑکوں پر فل ڈریس ریہرسل بھی ہوئی۔
روس میں ہر علاقے کی فوجی اکائیاں جن میں سے بعض دوسری جنگ عظیم کی وردی میں تھیں ریڈ سکوائر پر مارچ کرتی ہوئی نظر آئیں جبکہ 100 سے زیادہ طیارے وہاں سے پرواز کرتے ہوئے گزرے۔
نئی ہائی ٹیک زرہ بکتر ٹی-14 ارمتا جنگی ٹینک کی بھی نمائش کی گئی۔ اس ٹینک پر ریموٹ کنٹرول مشین گن نصب ہے جبکہ 125 ایم ایم دہانے والی توپ نہ صرف گولے بلکہ گائیڈڈ میزائل فائر کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
اس کے علاوہ آر ایس-24 یارس نامی بین البراعظمی بیلسٹک میزائل بھی نمائش میں شامل ہے جو تین جوہری بم لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
چینی صدر شی جن پنگ، بھارتی صدر پرنب مکھرجی اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون ان اہم عالمی شخصیات میں شامل ہیں جو اس پریڈ میں شرکت کر رہے ہیں۔
چین اور روس کے درمیان قریبی تعلقات کے اشارے کے طور پر پہلی مرتبہ چینی فوجیوں کے ایک دستے نے ماسکو میں مارچ کیا۔
روس کے دوسرے شہروں میں بھی چھوٹے پیمانے پر فوجی پریڈ کا انعقاد ہو رہا ہے۔ ان میں کرائمیا کا شہر سواستوپول بھی شامل ہے جسے گذشتہ سال مارچ میں روس نے یوکرین سے علیحدہ کر کے اپنے ملک میں ضم کر لیا تھا۔
روس نواز باغیوں کے علاقے لوہانسک اور دونیتسک شہروں کی سڑکوں پر بھی ٹینک دوڑتے نظر آئیں گے۔
امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا، اور یورپی یونین کے زیادہ تر ممالک کے سربراہان یوکرین کے بحران کی وجہ سے اس روسی جشن کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔
جمعے کو پولینڈ نے ان رہنماؤں کے لیے ایک متبادل تقریب منعقد کی جنھوں نے ماسکو جانے سے انکار کیا۔ اس تقریب میں بلغاریہ، چیک ریپبلک، ایستونیا، لیتھوانیا، رومانیا، یوکرین نے شرکت کی جبکہ بان کی مون وہاں بھی موجود تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یوکرین کے صدر پیٹرو پوروشینکو نے کہا کہ ’ماضی کے تلخ ترین اسباق کے باوجود ہمارے ملک کے خلاف جارحیت کے روپ میں آج 21 ویں صدی میں جرم کیے جا رہے ہیں۔‘
انھوں نے سنیچر کو ماسکو میں ہونے والے پریڈ کو ’پاگل پن کی پریڈ‘ سے تعبیر کیا۔
Source: BBC news