قطب شمالی میں ’نئے عہد‘ کا آغاز

ناروے کے سائنس دانوں نے کہا ہے کہ بحرِ منجمد شمالی میں اتنی شدید اور گہری تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں کہ یہ خطہ ’ایک نئے عہد‘ میں داخل ہونے کو ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پہلے اس شمالی خطے کو برف کی بھاری اور موٹی تہہ ڈھانپے رکھتی تھی لیکن صورتِ حال میں تبدیلی سے گرمیوں کے موسم میں برف کی پتلی تہہ کے بخارات بن کر اڑ جانے سے دیر پا اثرات مرتب ہوں گے۔
ناروے کے پولر انسٹی ٹیوٹ نے سال کے سرد ترین مہینوں میں بحرِمنجمد شمالی میں ایک تحقیقی ٹیم بھیجی۔ اس مہم کے دوران میں سائنس دانوں کو مکمل تاریکی جیسے حالات اور سردی کے انتہائی درجات برداشت کرنا پڑے۔
سائنس دانوں کا مقصد قطب شمالی پر سردیوں کے دوران برف کے انجماد کے حالات سے متعلق ڈیٹا اکٹھا کرنا ہے۔
لانس نامی ایک تحقیقی جہاز قطب شمالی سے پانچ سو میل کے علاقے میں بھیجا گیا ہے جس پر برف بھری ہوئی ہے اور یہ اپنے مقام سے ادھر ادھر ہو سکتا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جین گنر وینتھر کا کہنا ہے: ’یہ معلومات جمع کرنا لازمی تھا کہ سردیوں کے موسم میں ہوتا کیا ہے تاکہ اس کی مدد سے مستقبل میں ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق خیالی طور پر ترتیب دیے گئے مختلف منظر ناموں کو بہتر بنایا جا سکے۔‘
انھوں نے کہا: ’موسمِ سرما میں ہمارے پاس قطب شمالی کے بارے میں سوائے چند ایک کے کوئی معلومات نہیں ہیں۔ لہٰذا یہ ڈیٹا بہت اہم ہے اور یہ ہمیں موسمِ سرما کے شروع میں برف کے انجماد کے عمل کو سمجھنے میں مدد دے گا۔ ہم گرمیوں میں برف کے پگھلنے تک یہیں رہیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک نئے عہد کا آغاز ہے۔ ہم پرانی سے نئی اور جوان برف کی جانب بڑھ رہے ہیں جو پتلی ہے۔ موسموں کو سمجھنے کے لیے تیار کردہ آج کے ماڈلوں نے برف کی اس نئی صورتِ حال کو تجزیے میں شامل نہیں کیا ہے۔ لہٰذا یہ جان کر کہ آج کی صورتِ حال کیسی ہے، ان موسمیاتی ماڈلوں کو بہتر بنایا جا سکتا ہے جن سے دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں پیش گوئی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔‘
ادھر امریکی سائنس دانوں نے خبر دی ہے کہ جب سے سیٹلائٹ کے ذریعے حاصل شدہ ریکارڈ رکھے جا رہے ہیں تب سے قطب شمالی پر برف کی زیادہ سے زیادہ حد حالیہ سردیوں میں کم ترین سطح پر رہی ہے۔
ناروے کے سائنس دانوں کی تحقیقی مہم کا محور بحرِ منجمد شمالی میں سالہا سال میں بنے والی برف میں کمی کے اسباب کا جائزہ لینا ہے جس میں نئی پتلی برف اور پرانی سخت برف شامل ہیں۔
اس تبدیلی پر تحقیق کرنے والوں میں ڈاکٹر ہاکن ہاپ شامل ہیں جو ماہرینِ حیاتیات کی اس ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں جو زیرِ برف کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’عموماً پہلے برس کی برف کے نیچے زندگی کے آثار کافی کم ہوتے ہیں۔ لیکن سالہا سال پرانی برف زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے اور اس میں ابھار اور جانوروں کی حیات کے آثار زیادہ ہوتے ہیں۔
’ہوا یہ ہے کہ قطب شمالی کے وہ حصے جہاں پیمائش کی گئی ہے وہاں سے پتہ چلا ہے کہ جانداروں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے اور ان کا وزن اور مقدار دونوں کم ہوئے ہیں۔ یہ بہت تشویش کی بات ہے کیونکہ یہ جاندار برف کے کناروں پر سمندری جانوروں کے لیے اہم شکار ہوتے ہیں اور سمندری حیات انھی کی وجہ سے پنپتی ہے۔‘
ناروے کی اس تحقیقی مہم میں شامل سائنس دان بحرِ منجمد شمالی کے اس حصے کے بارے میں جامع تجزیہ فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر پولونا ایٹکِن برف پر مختلف آلات نصب کر رہے ہیں تاکہ جون میں جب یہ مہم ختم ہو تو برف کے پتلا ہونے اور اس کی
حرکت کا جائزہ لیا جا سکے۔
وہ کہتے ہیں: ’ہم اس برف کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتے ہیں جس کا کئی دہائیوں کے دوران مطالعہ کیا گیا ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اب یہ برف مختلف ہے اور ہم جاننا چاہیں گے کہ یہ کتنی مختلف ہے اور ماحولیات کے دیگر عوامل کے لیے اس کے کیا معنی ہیں۔‘
اس تحقیق میں کئی خطرات بھی ہیں جن میں سے ایک نقطۂ انجماد سے نیچے کے درجہ حرارت میں کام کرنا شامل ہے۔ لانس نامی جہاز کے دورے میں درجۂ حرارت باقاعدگی سے منفی 21 درجے سے نیچے گیا اور ہوا کی وجہ سے محسوس درجۂ حرارت منفی 47 درجے تک سرد تھا۔
’ایک اور خطرہ قطب شمالی میں پائے جانے والےریچھوں سے ہے۔ ان میں سے ایک اس جہاز کی طرف آ گیا جس پر ہم سوار تھے۔ قطب شمالی پر سردیوں کی تاریکی میں ڈاکٹر جینیفر کنگ جہاز کی لائٹ کی روشنی میں گروپ کے ساتھ کام کر رہے تھے کہ انھیں اچانک سفید
ریچھ نظر آیا: ’یہ ریچھ 25 میٹر دور تھا اور قطب شمالی کے بادشاہ والی شاہانہ جاہ و عظمت کے ساتھ ہمیں دیکھ رہا تھا۔ یہ ریچھ بہت خوب صورت لگ رہا تھا لیکن ہمارا دل جیسے بند سا ہو گیا۔ اسے روشنیوں کے ذریعے ڈرا کر بھگا دیا گیا۔‘
ایک اور خطرہ جہاز میں بھری برف سے ہے۔ مہم کے دوران برف میں شگاف پڑے ہیں اور اس کے اندر دباؤ پیدا ہوا ہے۔ کئی مرتبہ ساز و سامان برف پر سے ہٹانا پڑا کہ کہیں یہ کھو نہ جائے۔
جین گنر ونتھر کے مطابق قطب شمالی کی نئی برف زیادہ متحرک ہے: ’ہم جانتے ہیں کہ برف کے ادھر ادھر ہونے کی رفتار سو سال پہلے کی نسبت تیز ہے۔ لہٰذا ہوائیں اور موسم، کم اور پتلی برف کو زیادہ حرکت میں لا رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ اب زیادہ فعال ہے۔‘
Source: BBC news