بڑی اہمیت کی چھوٹی بات

“جو قوم اپنی زمینوں کو تباہ کر تی ہے وہ درحقیقت خود کو تباہ کرتی ہے۔” فرینکلن ڈی روزویلٹ
باغات اور پارکوں کے وجود کو سترھویں صدی میں تلاش کیا جا سکتا ہے، جب لندن کے نجی رہائش گاہوں کے مالکان نے اپنے باغات کے دروازے تمام سماجی طبقات کے لوگوں کےلیے کھول دیے۔ عوام کو خوش کرنے والے پارک سب سے پہلے لندن میں ابھرے، جب ڈڈسن مینور نے برمنگھم میں سب سے پہلے تجارتی پارک کو لوگوں کے لیے کھولا۔ انیسویں صدی کی شروعات نے شہری علاقوں میں مڈل کلاس کے پارک ابھرتے دیکھے۔ ان پارکوں کا مقصد ملحق آبادی کو تفریح کے مواقع فراہم کرنا تھا۔ اس زمانے میں پارک شہرسے ملحقہ دیہی علاقے میں امیر شہریوں کی دہلیز پر واقع ایسے قطعات زمین تھے جنہیں مخصوص رکھنے کی غرض سے ان میں داخلے کی فیس وصول کی جاتی تھی۔
شہر میں پائے جانے والے پارک اور سرسبز زمین کے قطعات شہر کی تزئین و آرائش کا ایک مضبوط عنصر ہونے کے ساتھ ساتھ شہری ورثہ اور ڈھانچے کا ایک لازمی جزو ہیں۔ شہرکے سرسبز قطعات ہر روز چوبیس گھنٹے ہمارے ماحو ل کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پارکوں اورسبز قطعات کے بغیر شہر کنکریٹ، اینٹوں ، سٹیل اور اسفالٹ کا ایک بے جان مرکب ہے۔ یہ شہروں اور قصبات کا بہت بڑا اثاثہ ہیں۔ اس لیے شہر کے ماسٹر پلان میں پارکس اور گرین سپیس کی موجودگی ایک پرجوش، خوشحال اور بہتر معیار زندگی کی کلید ہے۔ ان کی موجودگی ہماری ذہنی اور نفسیاتی صحت کے لیے ضروری ہے۔ پارکوں میں کھلے خوش رنگ پھول ہمارے شہروں اور قصبات کا لازمی جزو ہیں اور ان کا ہمارے موڈ اور جذبات پر ہونے والا اثر کسی بھی پیمانے سے ناپا نہیں جا سکتا۔ ہمارے سر سبز قطعات ہمارے قدرتی نظام جس میں کاربن، پانی اور دوسرے قدرتی نظام موجود ہیں کو بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں، یہ ہمارے ایکو سسٹم کو مدد فراہم کرتے ہیں اور شہر میں پائے جانے والے جاندار اجسام کی بے قاعدگیوں کی تصحیح کرتے ہیں، اور یہ لوگوں کے لیےتنہائی کے ساتھی اور ایک پناہ گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اپریشن کے بعد جب مریضوں کو ہسپتال میں رکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو ان کے لیے ایسے کمروں کا انتخاب کیا جاتا ہے جہاں سے انہیں درخت، پودے اور سرسبز قطعات نظر آتے رہیں۔
اندرون شہر درجہ حرارت اورحبس کا توازن برقرار رکھنے میں یہ سر سبز قطعات اپنا ایک لاثانی کردار رکھتے ہیں۔ یہ اندرون شہر کنکریٹ سی نکلنے والی گرمی سے بننے والے ہیٹ آئی لینڈ اثرات کو کم کرتے ہیں۔ ایک بڑے قطعہ زمین پر سانس لیتے ہوئے(عمل تبخیر) سبزہ کا مجموعی اثر ہوا کے درجہ حرارت کو کم کرتا ہے، حبس کو معمول پر لاتا ہے، دھوپ کی چکا چوند کو کم کرتا ہے، اور لو کے تھپیڑوں کی رفتار میں کمی لاتا ہے۔پودے فطرت کے پھیپھڑے ہیں کیونکہ یہ اپنے پتوں پر موجود مساموں کے ذریعے ماحول کی آلودگی کو چوس لیتے ہیں۔ سبز قطعات پر موجود پودے نامیاتی مواد کے عمل کو تیز کرتے ہیں اور برساتی پانی کو پچھاڑتے ہیں۔ ضیائی تالیف کے عمل سے پودے ہمارے سانس لینے کے لیے آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ ایک ایکڑ میں اگے ہوئے پودے ہر دن اتنی آکسیجن ضرور پیدا کر لیتے ہیں جو لوگوں کے لیے کافی ہوتی ہے، اور ایک ایکڑ پر اگے یہی پودے ایک سال کے عرصہ کے دوران اتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر لیتے ہیں جو آپ اپنی کار کو ۲۶۰۰۰ میل چلا کر پیدا کرتے ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی زمین سے نکلنے والی حرارت کو فضا میں ہی روک لیتی ہے اور خلا میں نہیں جانے دیتی جس کی وجہ سے گرین ہاوس ایفیکٹ پیدا ہوتا ہے۔ پودے اپنے ضیائی تالیف کے عمل سے اس گرین ہاوس ایفیکٹ کو کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے اور آکسیجن کو فضا میں پھینک کر کم کرتے ہیں، جبکہ یہ جذب کی گئی کاربن کو سیلولوز کی شکل میں اپنے تنے میں ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ ایک صحت مند درخت سالانہ تقریبا ۱۳ پونڈ کاربن ذخیرہ کرتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ ایک ایکڑ پر اگے ہوئے درخت سالانہ ۲۔۶ ٹن کاربن جذب کر لیتے ہیں۔ ہوا کی صفائی کا ۳۰ فیصد عمل پودوں سے پورا ہو جاتا ہے۔ پودوں کی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے ، کاربن کو ذخیرہ کرنے اور ٹھنڈک کے احساس کی صلاحیت گرین ہاوس ایفیکٹ کو کم کرنے کا ایک موثر ہتھیار ہیں۔
سرسبز قطعات اور پارک کسی بھی شہر کی تعمیراتی اور جمالیاتی حس کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ یہ سماجی روابط، معاشرتی تعلقات اور معاشی سرگرمیوں کا اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔ اس طرح کے قطعات دوستوں، اجنبیوں اور خاندانی اجتماع کے لیے محفوظ جگہ مہیا کرتے ہیں۔ یہ خاندانی اقدار کی توثیق کرتے ہیں کیونکہ اکٹھے تفریح کرنے سے خاندانی تعلقات گہرے اور مضبوط ہوتے ہیں۔ شادی شدہ جوڑے گھر سے زیادہ پارک میں اپنے فارغ وقت کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ پارکس سماجی تقریبات، رضاکارانہ سرگرمیوں ، خیراتی چندہ جمع کرنے کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی تفریح کا سامان فراہم کرتے ہیں جس سے نسلی اور ثقافتی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ پارکس سرکش رویوں، ثقافتی تنوع اور لڑکپن کی مجرمانہ سرگرمیوں کو کم کرتے ہیں۔ فیونکس ایریزونا میں لڑکپن جرائم کی شرح ۵۵ فیصد کم ہوگئی جب وہاں کے پارکس کو صبح دوبجے تک کھلا رکھا گیا۔ کھلی جگہیں ہمسائیگی کو فروغ دیتی ہیں، بوریت پر قابو پانے میں مدد دیتی ہیں، پرانی یادوں کو دہرانے کا موقع دیتی ہیں، اور لازمی طرز زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے ہمیں قدرت سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ سرسبز مقامات پر مکان اور دفاتر عجلت سے کرائے پر چڑھ جاتے ہیں، ان کا کرایہ بھی زیادہ ہوتا ہے اور کرایہ دار زیادہ لمبے عرصے تک رہائش پزیر رہتے ہیں۔ سبزے میں گھری جائیداد بنجر زمین والی جائیداد سے زیادہ قیمت رکھتی ہے۔ مختلف سروے اس بات کی غماضی کرتے ہیں کہ سبزے والی جائیداد کی قیمت عام جائیداد سے تقریبا ۱۵ فیصد زیادہ ہوتی ہے۔ سبزے میں گھرے دفاتر اور صنعتی علاقوں کی مانگ عام علاقوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے اور ان کے کرایے اور قیمت میں بھی فرق ہوتا ہے۔
شہروں میں واقع پارک، باغات اور تفریح کے لیے بنائی گئی خالی جگہیں تجارتی ترقی اور اندرون شہر اقتصادی بحالی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ یہ سیاحوں کو راغب کر کے مقامی معیشت کو فروغ دیتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ کے پارک، دریا، خوبصورت نظارے، جنگلی حیات اور کھلی جگہیں اس کی سیاحت کی آمدنی میں ۵۰۲ ارب ڈالر کا حصہ ڈالتی ہیں۔ ریاست ہائے امریکہ کی پینسلوینیا یونیورسٹی نے نے ایک شہری پارکوں کے وسیع تر فوائد جانچنے کے لیے ایک سٹڈی کروائی جس کے مطابق لوگوں کے خیال میں پارک اور وسیع کھلی جگہیں ان کو ۴۲٪ زاتی فائدہ دیتی ہیں، ۳۸٪ سماجی فوائد، ۱۲٪ صحت کے فوائد، اورا۸ ٪حولیات کے فوائد شامل ہیں۔ اسی طرز کی ایک تحقیق زرعی یونیورسٹی فیصل آباد نے ۲۰۱۳ میں منعقد کروائی جس کے مطابق پاکستان کے لوگوں کے خیال میں پارک ۳۵٪ صحت کے فوائد، ۲۵٪ ماحولیات کے فوائد، ۲۰٪ جمالیاتی حس کے فوائد اور ۱۹٪ صحت کے فوائد دیتے ہیں۔
پارکوں اور سرسبز مقامات کے مادی اور غیر مادی فوائد سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن کیا پاکستان میں ہمارے پاس اس طرح کے پارک کافی تعداد میں موجود ہیں؟ ہمیں چاہیے کہ شہر میں رہائش کا کو ئی بھی منصوبہ بناتے ہوئے کل رہائشی زمین کا ۳۰٪ پارکوں کے لیے چھوڑ دیں، تاکہ ہم اپنے معیار زندگی اور قدرتی وسائل کو محفوظ رکھ سکیں۔