
سکول میں بچوں کے درمیان متعصبانہ رویے
پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت کے رجحان نے اُن ننھی کونپلوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جِنہیں آگے چل کر گلستانِ مملکت کو محبت کے پھولوں سے سجانا تھا۔ آج ہمارے بچے تعلیمی درسگاہوں میں اِنتہائی متعصبانہ رویوں کا اظہار کرتے
ہوئے پائے جاتے ہیں۔ جب اُن سے پوچھا جائے کہ اُنہوں نے یہ متعصبانہ رویہ کہاں سے سیکھا تو وہ برملا کہتے ہیں کہ اِس کی وجہ ہمارے والدین اور معاشرے کے دوسرے افراد ہیں جن کو ہم دن رات اس متعصبانہ رویے کا اظہار کرتے ہوئے پاتے ہیں۔
یہ ذیادہ دیر کی بات نہیں جب سکولوں میں ہر رنگ و نسل ، مذہب اور ذات کے بچے اکٹھے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ ان بچوں میں ہر اِمتیاز سے بالاتر ضرب المثل قسم کی دوستیاں تھیں۔ جن میں سے بہت سی دوستیاں مرتے دم تک قائم رہتی تھیں۔
آج جب ہم کسی بھی تعلیمی ادارے کا بغور جائزہ لیتے ہیں تویہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اول تو غریب اور معاشرتی اعتبار سے پست لوگوں کے بچے سکولوں میں ہوتے ہی نہیں ، اور اگر ہوتے ہیں تو تمام وقت وہ اساتذہ اور دوسرے بچوں کی طعن و تشنیع اور حقارت کا بوجھ برداشت کرتے ہیں جسے انگریزی زبان میں (BULLYING) کہتے ہیں۔
درسگاہوں اور عام زندگی میں بھی ایسے کسی رویے کی سختی سے مذمت ہونی چاہیے ۔ ہمارے یہ رویے ہی امیر اور غریب کے درمیان حائل خلیج کو اور وسعت دے رہے ہیں۔ اس خلیج کے بڑھنے سے دونوں طبقوں کے درمیان نفرت بھی بڑھ رہی ہے اور اسی نفرت کا خمیازہ ہم دہشت گردی کی شکل میں بھگتتے ہیں۔
ان حالات میں والدین اور اساتذہ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی آنے والی نسلوں کو اس طرح کے رویوں سے بچانے لے لیے اپنا اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ والدین اپنے بچوں کی موجودگی میں اپنے گھریلو اور دوسرے ملازمین کو گالی گلوچ نہ کریں۔ بچوں کو عملا اپنے سے کم تر معاشی اور معاشرتی رتبے والے لوگوں سے محبت کے سلوک کی ترغیب دیں۔ اساتذہ ایسے بچوں کو طنزو تحقیر کا نشانہ نہ بنایءں تا کہ بچے بھی ان سے ایسا سلوک نہ کریں۔
بدقسمتی سے ایسے تمام تر رویوں کا اظہار ہماری سرکاری درسگاہوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔محکمہ تعلیم کو چاہیے کہ وہ سکولوں اور کالجوں میں لازمی عدم تشدد اور عدم طعن و تشنیع(Non Bullying) کی پالیسی رائج کرے اور کسی بھی ایسے واقعہ میں ملوث استاد یا طالبعلم کو قرار واقعی سزا دے کر دوسروں کے لیے مثال بنا دے۔ آپ یقین کیجیے آپ کے سکولوں اور کالجوں میں داخلے کی شرح بڑھے گی اور سکول و کالج کی تعلیم یکدم ترق کرنے والے طالبعلموں کی تعداد میں بھی خاطرخواہ کمی آئے گی۔
میری تمام والدین اور اساتذہ سے درخواست ہے کہ ہم نے اپنے ان متعصبانہ رویوں کی وجہ سے اپنے آپ کو ایک ایسے گرداب میں پھنسا لیا ہے جس میں سے نکلنے کے لیے ہماری نوجوان نسل کو کڑی محنت کرنا پڑے گی۔ کیوں نہ یہ سفر آج ہی شروع کیا جائے!
آج جب ہم کسی بھی تعلیمی ادارے کا بغور جائزہ لیتے ہیں تویہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اول تو غریب اور معاشرتی اعتبار سے پست لوگوں کے بچے سکولوں میں ہوتے ہی نہیں ، اور اگر ہوتے ہیں تو تمام وقت وہ اساتذہ اور دوسرے بچوں کی طعن و تشنیع اور حقارت کا بوجھ برداشت کرتے ہیں جسے انگریزی زبان میں (BULLYING) کہتے ہیں۔
درسگاہوں اور عام زندگی میں بھی ایسے کسی رویے کی سختی سے مذمت ہونی چاہیے ۔ ہمارے یہ رویے ہی امیر اور غریب کے درمیان حائل خلیج کو اور وسعت دے رہے ہیں۔ اس خلیج کے بڑھنے سے دونوں طبقوں کے درمیان نفرت بھی بڑھ رہی ہے اور اسی نفرت کا خمیازہ ہم دہشت گردی کی شکل میں بھگتتے ہیں۔
ان حالات میں والدین اور اساتذہ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی آنے والی نسلوں کو اس طرح کے رویوں سے بچانے لے لیے اپنا اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ والدین اپنے بچوں کی موجودگی میں اپنے گھریلو اور دوسرے ملازمین کو گالی گلوچ نہ کریں۔ بچوں کو عملا اپنے سے کم تر معاشی اور معاشرتی رتبے والے لوگوں سے محبت کے سلوک کی ترغیب دیں۔ اساتذہ ایسے بچوں کو طنزو تحقیر کا نشانہ نہ بنایءں تا کہ بچے بھی ان سے ایسا سلوک نہ کریں۔
بدقسمتی سے ایسے تمام تر رویوں کا اظہار ہماری سرکاری درسگاہوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔محکمہ تعلیم کو چاہیے کہ وہ سکولوں اور کالجوں میں لازمی عدم تشدد اور عدم طعن و تشنیع(Non Bullying) کی پالیسی رائج کرے اور کسی بھی ایسے واقعہ میں ملوث استاد یا طالبعلم کو قرار واقعی سزا دے کر دوسروں کے لیے مثال بنا دے۔ آپ یقین کیجیے آپ کے سکولوں اور کالجوں میں داخلے کی شرح بڑھے گی اور سکول و کالج کی تعلیم یکدم ترق کرنے والے طالبعلموں کی تعداد میں بھی خاطرخواہ کمی آئے گی۔
میری تمام والدین اور اساتذہ سے درخواست ہے کہ ہم نے اپنے ان متعصبانہ رویوں کی وجہ سے اپنے آپ کو ایک ایسے گرداب میں پھنسا لیا ہے جس میں سے نکلنے کے لیے ہماری نوجوان نسل کو کڑی محنت کرنا پڑے گی۔ کیوں نہ یہ سفر آج ہی شروع کیا جائے!